زبان سیکھنا
میرے میزبان کلآوڈ صاحب تھے۔ لگ بگ 60 سال کے ہوں گے۔ خوش آمدید کے بعد انکا دوسرا جملہ تھا کہ ان سے آپ آپ نہیں کروں۔ انہوں نے سمجھایا کہ فرانس میں آپ آپ عام ہے مگر کیوبک میں ہرگز نہیں۔ یہاں صرف والدین اور پوپ کے لیۓ استعمال کیا جاتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اردو زباں والے کو 60 سالہ آدمی سے تو تو کرتے ہوۓ شرم آۓ گی۔ ان کے نزدیک تمیز سے بات کرنا ہی بدتمیزی تھی۔ پر بندہ کرے بھی تو کیا؟ ایک طرف ان کے صفید بال اور دوسری طرف کتے میاں۔ کتے میاں کے رعب کے ملحوظ میں فوراً مان گیا اور آپ تم میں بدل گیا۔
کلآئوڈ صاحب تھے بڑے بھلے میٹھے آدمی۔ ان کو بڑی خوشی ہوتی تھی دیکھتے ہوۓ کہ میں فرانسیسی سیکھنے کے لیۓ کس حد تک جانے کو تیار تھا۔ انہوں نے مجھے دی 24 گھنٹوں کی مہلت انگریزی بولنے کی۔ اس کے بعد اگر انگریزی بولی گئی تو وہ بگ بین کو میرے پیچھے چھوڑ دیں گے۔ ان کے نزدیک یہ ہنسی مزاق تھا مگر میں یہ دھمکی سن کر ذرا سہم گیا۔ بعد اذاں میں اپنا نام بھی فرانسیسی انداز میں بولا کرتا۔ مجھے ڈرانے کے بعد گلآئوڈ صاحب نے اپنی آپ بیتی سنائی۔ اس وقت تو بہت ہوں ہاں کی تھی مگر آپ کو بخش دیتا ہوں۔ کتعی دلچسپ نہیں تھی۔ ہر چھ جملوں کے بعد وہ کیوبک کا کوئی خاص محاورہ ادا کرتے۔ پھر پوچھتے کہ سمجھ آیا؟ پھر سمجھاتے۔ میں جلد ہی اس ہی مانع خیز مسکراہٹ پر اتر آیا۔
ویسے وہ جگہ تھی بڑی پیاری۔ بڑی سی جھیل ہاسٹل سے دو قدم۔ انتہائی پیارے دریا کا گاؤں کے درمیاں سے گزر۔ افسوس کہ دونوں پورے طور پر جمے ہوۓ تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ چند ہی دنوں میں جھیل اس حد جم جاۓ گی کہ اس پر گاڑیاں چلیں گی۔ اس جنوبی پاکستانی نے اس موقع پر استغفار پڑھا اور مصمم ارادہ باندھا کہ اس برفستان سے جلد از جلد نجات حاصل کی جاۓ- تب سمجھ میں آیا میرے دوستوں کے نزدیک میرا عین سردیوں میں شمالی کیوبک جانے کا اور وہاں برف صاف کرنے کا کام ڈھونڈنے کا فیصلہ اتنا احمقانہ کیوں تھا۔ خیر اب تو پھس گۓ تھے۔
گاوں کی پہلی سیر کے دوران مجھے پتا چلا کہ یہاں کل دو ٹریفک سگنل ہیں۔ پھر بتایا گیا کہ اب یہ گاوں نہیں رہا، شہر بن چکا ہے، کیونکہ یہاں آج رات ہی مکڈونلڈز کھلا ہے۔ اس ہی رات ہم وہاں گۓ- غالباً پورا گاؤں کرسمس کے کپڑے پہن کر مکڈونلڈز کی افتتاح کے موقع پر آیا تھا۔ ہر چہرہ دمک رہا تھا۔ گاؤں کی ترقی کی خوشی کی وجہ سے، یا مکڈونلڈز کے تیل سے بھرپور کھانے کی چمک سے۔